وقت لگتا ہے یہاں خود کو سدھرنے کے لیے
تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے
حوصلے کا فی نہیں کچھ کر گزر نے کے لیے
اک مسلسل جنگ کرنی ہے ابھر نے کے لیے
کون کرتاہے بھلا یاں عشق مرنے کے لیے
زندگی درکار ہے اک زخم بھرنے کے لیے
عشق ایسا کر گزر خود کو سنور نے کے لیے
دل کو آئینہ بنا ، دل میں اترنے کے لیے
بز ر گوں کے سا منے رکھ دل نکھرنے کے لیے
خر د کا فی علم کی اب گھا نس چر نے کے لیے
کو ن راصی ہو بھلا انکار کرنے کے لیے
تو ہی حاضر تو ہی ناظر بات کرنے کے لیے
عالموں اور ذاہدوں کی خیر کرنے کے لیے
ہم کو ہے معلوم قاسم پر کتر نے کے لیے
ہے کھلا دشمن وہ سب کا ، کان بھرنے کے لیے

0
73