| وقت لگتا ہے یہاں خود کو سدھرنے کے لیے |
| تجربے کے دشت سے دل کو گزرنے کے لیے |
| حوصلے کا فی نہیں کچھ کر گزر نے کے لیے |
| اک مسلسل جنگ کرنی ہے ابھر نے کے لیے |
| کون کرتاہے بھلا یاں عشق مرنے کے لیے |
| زندگی درکار ہے اک زخم بھرنے کے لیے |
| عشق ایسا کر گزر خود کو سنور نے کے لیے |
| دل کو آئینہ بنا ، دل میں اترنے کے لیے |
| بز ر گوں کے سا منے رکھ دل نکھرنے کے لیے |
| خر د کا فی علم کی اب گھا نس چر نے کے لیے |
| کو ن راصی ہو بھلا انکار کرنے کے لیے |
| تو ہی حاضر تو ہی ناظر بات کرنے کے لیے |
| عالموں اور ذاہدوں کی خیر کرنے کے لیے |
| ہم کو ہے معلوم قاسم پر کتر نے کے لیے |
| ہے کھلا دشمن وہ سب کا ، کان بھرنے کے لیے |
معلومات