| میں خود کو کہیں چھوڑ آیا |
| گماں کیا یقیں چھوڑ آیا |
| خیالوں کی محفل میں بیھٹا |
| میں سب کچھ وہیں چھوڑ آیا |
| یوں سجدہ درِ یار پر تھا |
| میں اپنی جبیں چھوڑ آیا |
| زمانے کو اچھی لگی گی |
| میں صورت حسیں چھوڑ آیا |
| یوں اُلجھی سی حالت بیاں ہو |
| کہ ہاں میں نہیں چھوڑ آیا |
| مری کند ذہنی یہی ہے |
| میں خود کو ذہیں چھوڑ آیا |
| جہاں ہوتا تھا کچھ سکوں بھی |
| وہی گھر مکیں چھوڑ آیا |
| تھا شوقِ محبت مرے میں |
| میں وہ بھی قریں چھوڑ آیا |
| کامران |
معلومات