| اُس کے جانے کا ہمیشہ غم رہا |
| ہجر میں اُس کے یہ دامن نم رہا |
| عشق اُس کو بھی ہو گا ہم سے کبھی |
| آج تک اِس بات کا برہم رہا |
| گر میں لکھتا بھی تو خط کس نام سے |
| ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا |
| خود سے بڑھ کر تھی محبت اُس سے پر |
| عشق اُس کو کیوں ہمیشہ کم رہا |
| چھوڑ کر راگیر جب سے وہ گیا |
| تب سے اِس دل میں مرے ماتم رہا |
معلومات