ہے بطحا کو یارو سفر دھیرے جاری
کرم اس خدا کا جو ہے ذاتِ باری
سدا دل میں میرے یہی آرزو تھی
کریں گے وہ محسن ختم بیقراری
نظر میرے آقا سے آئی عطا کی
لگے آساں مجھ کو بڑی ذمہ داری
درِ پاک ہادی پہ سر کو رکھوں گا
عمر کو کہوں گا یہاں گزرے ساری
کہیں گے یہ آنسو جو روداد میری
گراں لائے گی رنگ یہ اشک باری
ندا کی یہاں پر ضرورت نہیں ہے
عطائے نبی ہے دہر میں نیاری
جو محمود فیضِ گراں کا ہے منبع
چلو دیکھو بطحا میں رحمت ہے ساری

35