پا سکیں پیار کا ہے کوئی دہانہ ہی سہی
لب پہ ہے عید مبارک کا ترانہ ہی سہی
ہجر کی بے کسی نے حال برا کر ہی دیا
"عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی"
منتظر غرق تصور میں ہو محبوب کے ہم
پھر چھڑے عشق و محبت کا فسانہ ہی سہی
نقش کچھ گہرے ابھر جائیں گے الفت کے اگر
داستاں لکھ دے وفا کی یہ زمانہ ہی سہی
رنج شاطر کسی صیاد کو ناصؔر نہ رہے
گر خطا ہو کبھی بھولے سے نشانہ ہی سہی

0
39