| بیڑی یہ مِرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو |
| پِھر عہد خُودی توڑ کے تُم جا تو رہے ہو |
| پلکوں کی مُنڈیروں پہ پرِندوں کو اُڑاؤ |
| تسلِیم کیا تُم مُجھے سمجھا تو رہے ہو |
| پچھتاوا نہ ہو کل، یہ قدم سوچ کے لینا |
| جذبات میں اُلفت کی قسم کھا تو رہے ہو |
| سمجھایا تھا کل کِتنا مگر باز نہ آئے |
| کیا ہو گا ابھی مانا کہ پچھتا تو رہے ہو |
| رہنے بھی ابھی دِیجِیے اشکوں کا تکلُّف |
| جب جانتے ہو دِل پہ سِتم ڈھا تو رہے ہو |
| اب ایک نئے طرزِ رفاقت پہ عمل ہو |
| تُم بِیچ میں لوگوں کے بھی تنہا تو رہے ہو |
| کل ٹھوکروں میں جگ کی کہِیں چھوڑ نہ دینا |
| اِک درد زدہ شخص کو اپنا تو رہے ہو |
| اِنسان کبھی رِزق سے بھی سیر ہُؤا ہے؟ |
| تقدِیر میں تھا جِتنا لِکھا پا تو رہے ہو |
| اِس میں بھی کوئی رمز، کوئی فلسفہ ہو گا |
| حسرتؔ جی ابھی جھوم کے تم گا تو رہے ہو |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات