دوستی سے بڑھ کے سوچا ہی کوئی رشتہ نہ تھا |
دوست یوں بن جائیں گے دشمن کبھی سوچا نہ تھا |
فرق تھا اس سے عقیدے میں ہوا جس سے فراق |
اس سے پہلے وہ خفا مجھ سے کبھی ہوتا نہ تھا |
بارہا مجھ سے کہا اس نے کہ پہلے تو کبھی |
اس قدر خوشبو سے دل کا یہ چمن مہکا نہ تھا |
بیوفائی کا مجھے الزام ، سن کر دے دیا |
وہ محبّت کا فسانہ جس کا میں حصّہ نہ تھا |
حاسدوں نے اس کو مجھ سے ایسا بدظن کر دیا |
میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ سنتا نہ تھا |
غیر کی صحبت نے بیگانہ کیا مجھ سے اسے |
ایسے غیروں کی طرح پہلے تو وہ ملتا نہ تھا |
دل پہ پتھر رکھ کے میں نے الوداع اس کو کہا |
مسکراہٹ تھی لبوں پر دل مرا ہنستا نہ تھا |
اس کو شکوہ تو ہوا تھا گردشِ ایّام سے |
اس کا چہرہ بولتا تھا منہ سے کچھ کہتا نہ تھا |
اس کے اندر جب رہا بن کر رہا اس کا وجود |
ماں نے بچے کو فقط کچھ سال تک پالا نہ تھا |
عشق جس کو نام دیں طارق ہے یہ دیوانگی |
دل دھڑکتا تھا مرے سینے میں پر میرا نہ تھا |
معلومات