| جلتے شعلے بھی پانی سے نکلیں گے |
| جب ہم تیری کہانی سے نکلیں گے |
| کیا کیا غم ہوں گے پیش؟ اللہ جانے |
| جوں جوں ہم اِس جوانی سے نکلیں گے |
| سُونا سُونا لگے گا دل کا گھر جب |
| ہم اُن کی میزبانی سے نکلیں گے |
| تو خوش فہمی میں مت ہو تیرے دل سے |
| ہم نکلے تو روانی سے نکلیں گے |
| لگتے ہیں راستے بُجھے سے لیکن |
| ہم تاروں کی نشانی سے نکلیں گے |
| کامران |
معلومات