نرم و نازک سے بدن پر رکھے حسیں خدو خال کے پردے ہیں۔
میرا دل چیرو جگر کو کریدو جینے تک سب پھندے ہیں۔
یہ نگاہوں کی مستی عاشق دریا عشق کا شوق سے کودے ہیں۔
یہ سفر جب اتنا کٹھن ہے اب اس راہ پہ تیرے بندے ہیں۔
شب خواب میں بیداری ایسے ہوئی جیسے رو بہ رو آئے ہیں۔
ہم گبھرا اٹھے سارا منظر اوجھل ہے بے چین یہ دیدے ہیں۔
حسنِ ظن کیسی لگن ہے ہر معراج بدولت پیار کے ہے۔
مغرور بے دردی نے نازک ارمانِ دل سب روندے ہیں۔
اک ایسے سیرت گر کی تلاش ہے لائے اک مرکز جانب۔
اب رنگ جو دیکھے جانے کتنے طول و عرض ہی کھودے ہیں۔
سمجھا تھا معالج میرا علاج کرے زخموں پر مرہم ہو۔
کم زخمی گر چہ تھے گہرے لیکن کانٹوں سے ہو چھیدے ہیں۔
کر لیتے سنگھار تو کچھ غمازی ہو جاتی دل مضطر کی۔
بے وجہی تیرے لیے چھوڑے ہیں دنیاوی سب عہدے ہیں۔
جو دعا کی حقیقت دیکھو تو ظرف کو پہچانو اے نادانو۔
ہے لگن تجھے پانے کی کیے لاتعداد خدا کو سجدے ہیں۔
رودادِ دل کتنی باقی ہے ہمت کر میرے ہمسر۔
اب ہمت باندھو کچھ تو سنو بیاں سے باہر سب مژدے ہیں۔
میرے ارمانوں کے قاتل پوچھیں کیسا مزاج رہا تیرا۔
قاتل چالاکی پر مقتول بہت سادے اور سیدھے ہیں۔
وعدہ کب ایفا ہو خدا وقت تو لائے گا ہم دیکھیں گے۔
ہر بار ہی مکرے ہیں کتنے کیے گرچہ اس نے جو وعدے ہیں۔
لکھو بات کو اتنی اٹل ہے جیسے پتھر پر ہو لکیر کوئی۔
پھر سبکی ہے گرچہ ان ہاتھوں سے لکھے یہ مسودے ہیں۔
اب شاید غور کریں اس بات پہ کچھ تو عمل وہ دکھائیں گے۔
ہیں اٹھائے بھی کتنی بار پڑے دل پر بے دھیانی کے پردے ہیں۔

0
3