| ہر ملاقات پہ اک زخم نیا دیتا ہے |
| زخم کے دینے کو انداز نیا دیتا ہے |
| اپنے دامن میں جو خورشید لیے بیٹھا ہے |
| شب کے مارو کو وہ جگنو سا دیا دیتا ہے |
| اے خدا ایسی محبت کا کروں کیا آخر |
| جو بھی دیتا ہے محبت میں زیاں دیتا ہے |
| ہونٹ سی دیتا ہے سائل کے یہ منصف میرا |
| اور ظالم کو یہ پھر زور بیاں دیتا ہے |
| ڈال کے پردے کئی چہرے پہ جو آتا تھا |
| روئے روشن کی وہ محفل میں ضیا دیتا ہے |
| ہم پہ ہر لمحہ گزرتا ہے قیامت، لیکن |
| جاتے جاتے علی وجدان نیا دیتا ہے |
معلومات