| سکوں پانے کی خواہش میں سبھی آرام بیچا ہے |
| ہمارا کام تھا بکنا سو اپنا کام بیچا ہے |
| بکا ہے گھر کروڑوں میں فقط افسوس ہے اتنا |
| وہاں بچپن کی یادیں تھیں جنہیں بے دام بیچا ہے |
| مقدر کا ستم دیکھو جہاں میں زندہ رہنے کو |
| کسی نے خون بیچا ہے کسی نے نام بیچا ہے |
| ہمی ابنائے یوسف تھے جنہیں اپنے عزیزوں نے |
| کبھی تو صبح بیچا ہے کبھی تو شام بیچا ہے |
| وبا پھیلی ہے ہر جانب حسد بغض و عداوت کی |
| کسی نے بیج نفرت کا یہاں بے دام بیچا ہے |
| نہ دو الزام واعظ کو بہت مجبور تھا وہ بھی |
| شکم کی آگ تھی غالب جبھی اسلام بیچا ہے |
| تھے چہرے زرد پتوں کے خزاں کا دور دورہ تھا |
| چمن رنجور مالی نے بصد آلام بیچا ہے |
| مرے حاکم نے برسوں سے وطن کے گوشے گوشے میں |
| کبھی الزام بیچا ہے کبھی کہرام بیچا ہے |
| لگی تہمت جو ساغر پر نکما عشق کرتا ہے |
| یونہی گھبرا کے پھر ہم نے دلِ بدنام بیچا ہے |
معلومات