جب اِلتفاتِ خلق ہی آزار بن جائے کہیں
جب مہربانی بن کے دل پر وار بن جائے کہیں
جب خامشی بھی گفتگو کے بدلے بہتر ہو کبھی
جب وصل کی خواہش بھی سوگوار بن جائے کہیں
جب تنہائیاں خود تجھے ہم راز جیسی لگنے لگیں
جب آئنے میں دیکھ کر خود کو کوئی سمجھے نہ تُو
جب ہر شناسا چہرہ بھی پرچھائیوں سا بن چلے
جب دل تری پہچان سے انکار بن جائے کہیں
جب منتظر رہنے سے بھی حاصل نہ کوئی بات ہو
جب آرزو ہو درد بن کر رہ گئی ہو رات ہو
جب سوچتا ہے دل کہ اب وہ آئے گا، پر آئے گا؟
جب وقت تیری تڑپ کا انکار بن جائے کہیں
جب ربط بھی مفہوم کھو دے گفتگو کی راہ میں
جب لفظ بھی الزام بن جائیں دُکھ کی چاہ میں
جب دوریاں اظہار کا پیمان بن جائیں اگر
جب خامشی بھی زخمِ گفتار بن جائے کہیں
تب چھوڑ دے سب واسطے، دل کو فقط تنہا رکھ
تب اشک کو عزت دے اور لب پر سکوت آرا رکھ
تب اپنی پہچان کو دنیا کے ہاتھوں بیچ مت
تب خود سے خود کا ربط رکھ، اور غیر سے رستہ رکھ

0
15