| رقص ٹوٹا دشت میں دیکھا نہ دیوانہ گیا |
| زندگی کے ہاتھ میں کچھ ہے نہیں، مانا گیا |
| دھول جب بھی خاک کے پیکر پہ ڈالی وقت نے |
| آئنے میں عکس لاکر ہم سے پہچانا گیا |
| کرگئی صحبت خیالِ یار کی سرشار یوں |
| پیاس ہونٹوں سے گئی ہاتھوں سے پیمانہ گیا |
| ہم کہاں واقف ہی تھے اپنی کہانی سے کبھی |
| اجنبی اک شخص تھا جو لکھ کے افسانہ گیا |
| حادثوں نے زندگی کو ہم نوائے غم کیا |
| ہجر میں بھی رائیگاں کب کس کا تڑپانا گیا |
| توڑ ڈالا وقت نے امید کا اک اک بھرم |
| اپنی باتوں سے بھی اپنا دل کا بہلانا گیا |
| چاہتوں کی پرورش میں یوں ہنر آتے گئے |
| درد سہنا آیا شیدؔا زخم سہلانا گیا |
معلومات