| پھول کِھل اُٹھے عجب رنگ ہوا طیر کا |
| عزم جب اُس نے کیا گل کدے کی سیر کا |
| آپ کی ہر بات میں تذکرہ ہے غیر کا |
| پہلو پھر ایسے میں کیا نکلے کوئی خیر کا |
| بس کہ ہمیں پر کریں آپ جفائیں تمام |
| غیر ہے کیا، غیر ہے کون، ہے کیا غیر کا؟ |
| مجھ کو مَرے تو زمانہ ہوا لیکن ہنوز |
| اُس کو ہے مجھ سے تعلق ستم و بَیر کا |
| جب بھی سرِ بزم وہ ذکر کرے آپ کا |
| دل تو کرے ہے کہ منہ نوچ لوں میں غیر کا |
| پڑھتے نہیں خط وہ میرا چلو اچھا, مگر |
| ہے یہ ستم خط وہ پڑھتے ہیں کسی غیر کا |
| جس کا ہے سر چوکھٹِ یار پہ شاہدؔ علی |
| اُس کو ہو معلوم کیسے حرم و دیر کا |
معلومات