نرم و نازک ہے یہ بدن جیسا اب پھول گلاب کا ہے۔
اب اندر مشکل ایسے جیسے سوال حساب کا ہے۔
سب ابھی آنے جانے کا اک سلسلہ سا لگا ہوا ہے۔
یوں سمجھا ہوا ہے جیسے یہ کام کسی نواب کا ہے۔
سب کچھ عیاں ہو جاۓ گا اس بات کے بارے میں اے دل۔
جب یہ کتاب کھلی پتہ چلا مسلہ سارا باب کا ہے۔
جب سے گلابی سی آنکھوں والے کا آنا جانا ہوا ہے۔
سارا سمجھا ہوا ہے سلسلہ کھلی اب یہ کتاب کا ہے۔
پھر سے ہوائیں دے کر شعلے بھڑکا دیتے ہیں اب لوگ۔
ہم بھی دیکھ ہی لیتے ہیں سارا کھیل کس جناب کا ہے۔
شاید ان کا کسی سے کبھی ہی واسطہ ایسا پڑا ہو اب۔
جلد سبق سیکھو گے آجاۓ گا مزہ انتخاب کا ہے۔
اب بندھن تو باندھا ہے پھر عمرِ رواں کے لیے ثابت۔
تب تلخی دل بڑھ گئی جب کہ پتہ نہ لگے کہ نصاب کا ہے۔

0
31