کون کہتا ہے کہ ہم سایۂ دیوار میں ہیں
سچ تو یہ ہے کہ سبھی دشمنِ آزار میں ہیں
حضرتِ شیخ کو ہے ایک فضیلت حاصل
رام کر سکتے ہیں کہ صاحبِ گفتار میں ہیں
سارے عشّاق میں ہے جانے رقابت کیسی
ایک منزل کے مسافر ہیں رہِ خار میں ہیں
کیا عجب لوچ ہے رفتارِ بلا خیز میں پر
ایسے ہی اور بھی بَل زلفِ طرح دار میں ہیں
کس سے فریاد کروں تیری جفاؤں کی صنم
منصفِ شہر بھی اب تیرے طرفدار میں ہیں
کوئی جِدّت نہیں دیکھی تری سوچوں میں کبھی
وہی فرسودہ فسانے ترے افکار میں ہیں
اب مرے شہر میں کوئی نہیں اوباش امید
ایسے بدنام لُٹیرے تری سرکار میں ہیں

0
140