ہوں غزل گو مگر اسلوب جدا رکھتا ہوں |
میں سخن کے سبھی مطلوب جدا رکھتا ہوں |
خط حفاظت سے مجھے رکھنے کی عادت تو نہیں |
اس کے آ جائیں جو مکتوب جدا رکھتا ہوں |
رند ہوں وہ جو پلائے تو پیا کرتا ہوں |
اس کا پیمانۂ مشروب جدا رکھتا ہوں |
دے کے دل ہجر میں آہیں تو بھرا کرتا ہوں |
یہ الگ بات ہے محبوب جدا رکھتا ہوں |
آئنہ بن کے دکھاتا ہے وہ اپنا چہرہ |
شعر جو اس سے ہوں منسوب جدا رکھتا ہوں |
ہے محبّت کا تعلّق تو سبھی لوگوں سے |
دوست جو مجھ کو ہیں مرغوب جدا رکھتا ہوں |
یوں چکا چوند سے دنیا کی میں غافل تو نہیں |
اس سے ہوتا نہیں مغلوب جدا رکھتا ہوں |
طارق آزادیٔ اظہار کا قائل ہوں مگر |
سوچ کرتی ہے جو مصلوب جدا رکھتا ہوں |
معلومات