تحلیل ہو گیا میں کہِیں حِدّتوں کے بِیچ |
شبنم کی کیا بساط بھلا سُورجوں کی بیچ |
کِس کو خبر کہ آنکھ ہو تیری بلیک ہول؟ |
دنیائیں ڈُوبتی ہوں انھی آئنوں کے بیچ؟ |
حیران کر رہا ہے یہ دَھک دَھک کا سلسلہ |
جاری ہے کس کا وِرد مری دھڑکنوں کے بیچ؟ |
دیکھا ہے اُس کو بارہا دُنیا کی بھِیڑ میں |
وہ مُنفرِد دِکھائی دِیا سینکڑوں کے بیچ |
کیا بدشگُون باس ہے دفتر میں چار سُو؟ |
کِس جھُوٹ کی سڑاند ہے اِن فائلوں کے بیچ؟ |
احساس بِک رہے ہیں یہاں کوڑیوں کے دام |
جذبات رائگاں نہ کرو بیدلوں کے بیچ |
اِس عالمی دیہات کا یہ المیہ ہے دوست |
نفرت دراڑ بن گئی ہے رابطوں کے بیچ |
چھپرے تجاوزات کے زمرے میں آگئے |
کاخ و قُصُور پھیل گئے ایکڑوں کے بیچ |
اے دِل بہت اداس ہے ماحول شہر کا |
گاؤں میں چل کے بیٹھتے ہیں پیپلوں کے بیچ |
کِس نے کہا کہ ہو گئی ہے کربلا تمام |
اب تک حُسین لڑ رہا ہے کُوفِیوں کے بیچ۔۔! |
تُم برگِ نامراد تھے نِچلے تنوں پہ خُوش |
سُوکھے کے سُوکھے رہ گئے نا بارشوں کے بیچ۔۔! |
پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ منزل ہے ناپدِید |
تُم لوگ کر رہے تھے سفر دائروں کے بیچ |
جام و سبُو میں گھول کے پی جاؤ اِضطراب |
ذہنی دباؤ ہے تو چلو میکشوں کے بیچ |
بچپن سے اِک بزُرگ کی اِک بات یاد ہے |
آسانیاں چھپی ہوئی ہیں مُشکلوں کے بیچ |
فتح و شکست کا نہیں تعداد پر مدار |
کافی ہے اِک دلیر بھی سو بُزدلوں کے بیچ |
امبر یہ داغ زخمِ ہزِیمت سے ہے بڑا |
غدّار گُھس گئے ہیں مرے لشکروں کے بیچ |
معلومات