چمن میں ہے وہی طرزِ بیاں اب
زباں جو شاعرِ گستاخ کی ہے
فراقِ عندلیبِ خوش بیاں ہو
سنو! یہ آرزو بھی شاخ کی ہے
تغافل کی سزا سب کو ملے گی
شرارت ورنہ تو سوراخ کی ہے
ہمارے آبلوں کی خیر یا رب!
مسافت وادیِ سنگلاخ کی ہے
طوافِ کوچۂ جاناں ہو ہردم
جہت قبلے کی جانب کاخ کی ہے
کروڑوں نسخے ہیں اور مختلف ہیں
مہارت دیکھ کیا نساخ کی ہے
کسی سے نقل کی ہے اور نہ سرقہ
نہ فوٹو کاپی استنساخ کی ہے
نہ جانے پک رہی ہے کیسی کھچڑی
نہ جانے چال کیا طباخ کی ہے

0
10