| خوشی نہیں ملتی اور غمی سے تھک گئے ہیں |
| یہ بھی نہیں ہے ہم ہر کسی سے تھک گئے ہیں |
| جو پوچھ لیں حالِ دل کسی سے ہم، کہیں سب |
| گُزر رہے ہیں دن زندگی سے تھک گئے ہیں |
| کوئی نہ کوئی شوخی ہمیں بھی رکھنی ہو گی |
| کریں بھی کیا آخر؟ سادگی سے تھک گئے ہیں |
| ہوا ہے کچھ ایسا باغ میں کہ خوشبو نہیں |
| کہ پھول بھی جیسے تازگی سے تھک گئے ہیں |
| اندھیروں سے یوں محبت ہوئی ہے ہم کو کہ بس |
| دِیے بجھا دیے ہیں روشنی سے تھک گئے ہیں |
| نہیں ہے گنجائش عشق میں یہ کہنے کی بھی |
| غرور کر لیں کچھ عاجزی سے تھک گئے ہیں |
| کہاں ہیں قلم و قِرطاس؟ پاس میرے رکھو! |
| یہ کب کہا ہم نے؟ شاعری سے تھک گئے ہیں |
| کامران |
معلومات