| نہ آیا کچھ، فقط آیا بگاڑ کر رکھنا |
| کمی ہے خود میں تو الزام اور پر رکھنا |
| پیام اس کے سوا اور کچھ نہیں میرا |
| حوالہ شعر کا اے دوست معتبر رکھنا |
| مثال تم کو عزازیل کی بہت ہو گی |
| خیال دل میں بڑائی کا ہو اگر رکھنا |
| گناہ اپنی سرشتوں میں ہے سو ہوتا ہے |
| ذرا سا دل میں مگر تم خدا کا ڈر رکھنا |
| بھلائی جاتی نہیں ہیں وہ چاندنی راتیں |
| تمہارے شانوں پہ بے چین ہو کے سر رکھنا |
| ہوئی ہے نصف صدی شعر ماپتے ہم کو |
| نہ آ سکا ہے مگر بات میں اثر رکھنا |
| مجھے بھی یاد دعاؤں کے بیچ میں حسرتؔ |
| اگرچہ کام ہے مشکل بہت، مگر رکھنا |
| رشِید حسرتؔ |
| ۲۶ مئی ۲۰۲۵ |
معلومات