ہم درد کے مارے اب دن رات سسکتے ہیں |
ہم روتے نہیں لیکن جذبات سسکتے ہیں |
اک شہرِ خموشاں کے ویران کنارے پر |
ہم کنج نشینوں کے مزارات سسکتے ہیں |
پرسوز گویے کے سر تال کی صورت میں |
غمگین غزل کے اب نغمات سسکتے ہیں |
کچھ یار ہمارے جب منہ پھیر کے جاتے ہیں |
پھر سوچ ہماری کے خدشات سسکتے ہیں |
تم حال ہمارے سے انجان ابھی تک ہو |
اب حال ہمارے پر صدمات سسکتے ہیں |
جب بھی لکھا ہم نے خود افسانہِ غم ساغر |
کاغذ قلم و سارے صفحات سسکتے ہیں |
معلومات