ہم درد کے مارے اب دن رات سسکتے ہیں
ہم روتے نہیں لیکن جذبات سسکتے ہیں
اک شہرِ خموشاں کے ویران کنارے پر
ہم کنج نشینوں کے مزارات سسکتے ہیں
پرسوز گویے کے سر تال کی صورت میں
غمگین غزل کے اب نغمات سسکتے ہیں
کچھ یار ہمارے جب منہ پھیر کے جاتے ہیں
پھر سوچ ہماری کے خدشات سسکتے ہیں
تم حال ہمارے سے انجان ابھی تک ہو
اب حال ہمارے پر صدمات سسکتے ہیں
جب بھی لکھا ہم نے خود افسانہِ غم ساغر
کاغذ قلم و سارے صفحات سسکتے ہیں

22