نگاہوں نے سب کچھ سکوتاً جلایا
محبت نے ہر رنگ اپنا گنوایا
سدا زیر کرتی مجھے حسرتوں سے
رہائی ملی تو تمنا نے مارا
نہ پایا سکوں میں نے خواہش کے رستے
نہ صبر آزمایا، نہ دل کو سنبھالا
ازل سے بھٹکتا رہا درد بن کر
جو پایا کبھی عشق میں، وہ خسارا
بدلتا رہا دل کی بستی کا موسم
کبھی درد نے اور کبھی غم نے مارا
شکستوں کے سائے میں پلتا رہا دل
ہنر نے بھی ہر داغ خود پر سجایا
خطاوار عشیارؔ ٹھہرا ہمیشہ
نہ قسمت نے بخشا، نہ دل نے نبھایا

0
11