ہیں نمودار یہ آثار سبھی آہوں کے
شب کی تاریکی میں آنکھوں سے بہے اشکوں کے
وقت سے بڑھ کے نہیں مرہم نہ دیکھا ہو
"زخم بھرنے لگے ہیں پچھلی ملاقاتوں کے"
کچھ توقف کے ارادے کی ہوئی حسرت کیوں؟
ہیں نشانات جہاں ابھرے تری قدموں کے
دور اندیشی برتنا ہے ہمیں ہر ساعت
حیلے غارت گری کو کافی ہیں بس لمحوں کے
مہرباں ابر یہ ہو جاتے ہیں جم کے ناصؔر
پھوٹ پڑتے ہیں دہانے تبھی ان جھرنوں کے

0
32