صرف چاہت میں یہ انعام ملا کرتا ہے
دل کے دکھنے پہ بھی آرام ملا کرتا ہے
ہے فراغت ہی کہاں یاد تمہیں کرنے کی
عشق کا جتنا ہمیں کام ملا کرتا ہے
باز آتا یہ اگر تھوڑا سیانا ہوتا
عشق میں دل کو جو انجام ملا کرتا ہے
کیا عجب ہے کہ محبت میں ہر اک کا محبوب
خاص ہوتا ہے مگر عام ملا کرتا ہے
جو بہکنے سے کیا کرتے ہیں رسوا مے کو
ایسے کم ظرفوں کو کیوں جام ملا کرتا ہے
عشق کے ناز اٹھانے سے اگرچہ صاحب
جان جاتی ہے مگر نام ملا کرتا ہے

0
32