ہارنا میداں میں ہرگز گوارا بھی نہیں
جیت کی خاطر پہ جزبہ ابھارا بھی نہیں
داستاں ایماں فروشی کی رکھ تو سامنے
باز آتے تخت و کرسی سے وزرا بھی نہیں
جس نے اخلاقی فریضہ کو ہی سمجھا نہ ہو
"وہ ہمارا بھی نہیں وہ تمہارا بھی نہیں"
استقامت سے ڈٹے رہنا ہے ہر حال میں
بے سر و سامانی میں کچھ سہارا بھی نہیں
روز روشن کی طرح گر ہے ناصؔر سب عیاں
جانے کیوں پھر ہم سمجھتے اشارہ بھی نہیں

0
36