ذکرِ سرکار، جنت کی بھی رعنائی ہے
ہر موڑ پہ جیون کے، لایا جو بھلائی ہے
جس سمت نظر جائے، نظارہ ہے یہ دیتا
خیر اُن کے حسن سے، حسینوں کی جو زیبائی ہے
لے آئے جو شوق مجھے، جالی کے مقابل میں
میں جانوں جہاں ہوتی، سینوں کی صفائی ہے
سرکار کی سیرت میں، چھپے گہنے ہیں طالب کے
ہر فعل جو سر زد ہو، عمدہ ہے ضیائی ہے
اس گلشنِ طیبہ میں، بلبل ہیں یہ رحمت کے
یوں لگتا ہے کہ جنت بھی یہاں، اتر آئی ہے
میرے سینے میں تڑپ ہے کہ، جالی کو میں چوموں
رب جانے کہ قسمت میں، رکھی یہ جبیں سائی ہے
محمود بھی طیبہ میں، سائل ہو تیرا جاں
اعلیٰ ہے جو شاہی سے، اس در کی گدائی ہے

24