| یہ نامہ سرِ محفل سب کو سنایا جائے |
| کاٹتا ہے وہی سر جسے سر پہ بٹھایا جائے |
| بزمِ ساقی ہے یہ ہو ادب ملحوظِِ خاطر |
| لازم ہے یہاں اپنے سر کو جھکایا جائے |
| آئینہ سچ بولتا ہے چاہے جو بھی ہو |
| گر ہو ممکن تو حاکم کو دکھایا جائے |
| بسمل کا لاشہ ہے درِ مقتل سے اسے اب |
| تابوتِ اکبر کی طرح اٹھایا جائے |
| یہ تو قانونِ قدرت ہے کہ ساغر جگ میں |
| غم کے ماروں کو سینے سے لگایا جائے |
معلومات