| یعنی وفاؤں پر نہ جفاؤں پہ ڈال دی |
| آخر وہ بات ہم نے خطاؤں پہ ڈال دی |
| رخصت ہوا تو سارے کھلونے سمیٹ کر |
| اک آخری نگاہ جو گاؤں پہ ڈال دی |
| برسوں کا بوجھ تھا جو کہیں پر اتارنا |
| اپنی تکان اپنی ہی چھاؤں پہ ڈال دی |
| چاہت کا حادثوں سے مسلسل ہے رابطہ |
| چھوٹی سی التجا تھی دعاؤں پہ ڈال دی |
| مڑ کر بھی دیکھنا تھا ضروری تو اک نظر |
| لمحوں کے بخت ساز خداؤں پہ ڈال دی |
| ہم گردِ رائگانی اٹھائے تھے دشت میں |
| ٹوٹے تو اشک بار فضاؤں پہ ڈال دی |
| شیدؔا کہاں سے آپ نے سیکھا تھا یہ ہنر |
| بیتے رُتوں کی خاک خزاؤں پہ ڈال دی |
| *علی شیدؔا* |
معلومات