تجھے یاد کرتے سحر ہو رہی ہے
مِری زندگی مختصر ہو رہی ہے
تُمِہیں سے تو ہے خدشہِ بے وفائی
تُمِہیں سے محبت مگر ہو رہی ہے
جدا ہو کے تم سے یہ حالت ہوئی ہے
جگر چھلنی ہے، چشم تر ہو رہی ہے
دماغ اپنا کیسے نہ ہو آسماں پر
مِری جانب اُن کی نظر ہو رہی ہے
کروں کیوں نہ میں شکر شاہد کہ اُن کی
عنایت مِرے حال پر ہو رہی ہے

0
100