| خزاں سے بچ کے نکلے تو بہاروں نے لوٹ لیا |
| میرے چمن کو میرے ہی یاروں نے لوٹ لیا |
| دشمن کے ہاتھوں لٹتے تو کوئی غم نہیں تھا |
| دکھ تو یہ ہے کہ طرفداروں نے لوٹ لیا |
| اُس قافلے کے رہبر سے کریں کیسا شکوہ |
| جس قافلے کو سب راہگزاروں نے لوٹ لیا |
| چندا سے ملنے پہنچی چکوری آسماں پر |
| چندا سے پہلے پہلے ستاروں نے لوٹ لیا |
| خزاں کی ضد میں آیا تو گلستاں بھی نہ بچا |
| ہوا نے رخ بدلا اور بہاروں نے لوٹ لیا |
| کوشش تو بہت کی سیلِ رواں سے بچا لیں مگر |
| میری آنکھوں کو اشکوں کے دھاروں نے لوٹ لیا |
| اسے ساغر پرسہ کیا دو گے تم جا کے بھلا |
| جسے اپنے ہی جاں نثاروں نے لوٹ لیا |
معلومات