خزاں سے بچ کے نکلے تو بہاروں نے لوٹ لیا
میرے چمن کو میرے ہی یاروں نے لوٹ لیا
دشمن کے ہاتھوں لٹتے تو کوئی غم نہیں تھا
دکھ تو یہ ہے کہ طرفداروں نے لوٹ لیا
اُس قافلے کے رہبر سے کریں کیسا شکوہ
جس قافلے کو سب راہگزاروں نے لوٹ لیا
چندا سے ملنے پہنچی چکوری آسماں پر
چندا سے پہلے پہلے ستاروں نے لوٹ لیا
ہمیں کتنا خیال تھا ہر گھڑی اپنے دل کا مگر
اُس حسنِ جہاں کے نظاروں نے لوٹ لیا
کوشش تو بہت کی سیلِ رواں سے بچا لیں مگر
میری آنکھوں کو اشکوں کے دھاروں نے لوٹ لیا
اسے ساغر پرسہ کیا دو گے تم جا کے بھلا
جسے اپنے ہی جاں نثاروں نے لوٹ لیا

0
43