| رنگِ مہر و وفا بابِ جود و سخا جانشینی کا جب مرتبہ مل گیا |
| جو بھی آیا یہاں در پہ روتا ہوا چین اپنا بھی تج کر سہارا دیا |
| روحِ الطف نے پائی تھی پوشاک وہ خاص علمِ لدُنّی سے رنگین تھی |
| سب کرم تھا رسولِ خداؑ کا تبھی سارے عالم میں ہر سو ہی شہرہ رہا |
| ان کے کاندھوں پہ ہر دم گراں بوجھ تھا اپنے مرشد سے وعدے کی تکمیل کا |
| پر طبیعت شگفتہ رہی عمر بھر اتنا رتبہ بلندی بھری شان کا |
| ہاں قلندر صفت خانوادہ تھے وہ بے نیازی فدا ان پہ ہر آن تھی |
| پھر بھی عادت مبارک تھی کیسی یہاں در سے خالی نہ کوئی بھی سائل گیا |
| روئے تاباں حسیں مثلِ رنگِ سحر حسن جس کا نکھرتا رہا ہر گھڑی |
| گفتگو جیسے موتی پرو دے کوئی لہجہ ایسا کہ چشمہ بہا شہد کا |
| گہرے رازوں سے پردہ ہٹانا مگر اتنی آسان کب تھی طریقت کی راہ |
| لطف ان کا نمایاں ہوا اس قدر سادہ لفظوں میں ہی سب کو سمجھا دیا |
| اک ادا تھی نرالی الگ ہی رہی بات کرنے کی جیسے جھڑی پھول کی |
| جیسے اندر اترتی ہوئی سی نگہ اور ہونٹوں پہ لپکا وہ مسکان کا |
| اس صدی کے وہ صوفی ہیں خواجہ لقب ہیں ممثل وہی اپنے مرشد کے بس |
| ان کا ثانی تو ممکن نہیں ہے مگر ان کے نقشِ قدم جا بجا جا بجا |
| کیا تصور ہے صورت گری کا یہاں جس کے کارن تھرکتی ہیں سب پتلیاں |
| خاکداں ہے جہاں کچھ نہیں ہے یہاں یہ بھی پردہ ہٹا کر دکھا ہی دیا |
معلومات