عرصہ گزر چکا ہے تماشا نہیں کیا
اپنوں سے بے وجہ کوئی جھگڑا نہیں کیا
اک وقت تھا اپنی بھی کسی دل میں جگہ تھی
عرصہ ہوا ہے اس نے بھی دعوی نہیں کیا
بکتی رہی وفائیں یہاں کے بازار میں
عرصہ ہوا ہے حسن کا سودا نہیں کیا
حیرت ہوئی آشفتہ سری کے گرفت میں
وہ مبتلا نہیں ، جو مداوا نہیں کیا
ہمراز مجھے خط بھی کچھ اس طرح لکھا
یک قرض وفا باقی ہے ادا نہیں کیا

2
146
بہترین لکھا

مسما ناز شکریہ❤

0