| لگا رکھا تھا جوئے میں ہمارے شاہزادوں نے |
| نکالا پھر ہمیں افتاد سے پختہ ارادوں نے |
| نہیں آباد ہو پائے ابھی تک ہم برابر سے |
| ہمیں پھر کھینچ لایا اس طرف کو جھوٹے وعدوں نے |
| سکوں دل کا گھڑی بھر کو میسر ہو نہیں پایا |
| کہیں کا بھی نہیں رہنے دیا اب تو عنادوں نے |
| ہمیں لگتا نہیں ہے بادشہ نے یہ کہا ہو گا |
| منادی جو یہاں آ کر سنائی ہے پیادوں نے |
| کبھی گوبر کا استعمال فصلوں کی ضمانت تھا |
| ابھی بے وقت ہی بیکار کر ڈالا ہے کھادوں نے |
| میں اپنے آپ سے بے دخل ہونے جا رہا تھا جب |
| مجھے آکر سنبھالا بھی تو پھر تیری ہی یادوں نے |
| تجھے بھی فیض جس جا سے بھی ملتا ہے تو حاصل کر |
| ہمیں بامِ عروجِ فن تو بخشا استفادوں نے |
| سنا تھا اک کرن تاریکیوں کو مات کرتی ہے |
| اجالوں کو ہڑپ لیکن کیا ہے تِیرہ زادوں نے |
| بڑی مندی ہے کاروبارِ دل میں اب تو حسرت جی |
| ہمیں گھاٹے میں رکھا ہے ہمیشہ سے کسادوں نے |
| رشید حسرت، کوئٹہ |
| ۲۲، دسمبر ۲۰۲۵ |
| Rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات