ڈھونڈتے کیا ہو دارِ فانی میں
ہُو کا عالم ہے لامکانی میں
قرب حاصل ہے مجھ کو یزداں کا
دل کو رکھا ہے ترجمانی میں
آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا
کر عطا دید ارمغانی میں
اپنی شَہ رگ میں دیکھ آیا ہوں
جس نے ٹالا تھا لَن تَرَانی میں
جس کا مَیں منتظر تھا مدت سے
مِل گیا ہے وہ زندگانی میں
تُو ہے عنواں مری کہانی کا
مَیں کہاں ہوں تری کہانی میں
آگ گلزار ہو گئی کیسے
ہے برودت شَرَر فشانی میں
دریا لگتا ہے کربلا جیسا
پیاس دیکھی ہے آج پانی میں
وجد تنویر جب ہوا طاری
خود کو پایا ہے پھر گیانی میں
تنویرروانہ

212