داغ سینے سے نکالے نہ گئے
درد اتنے تھے سنبھالے نہ گئے
اشک آئے نہیں آنکھوں میں مگر
کیوں لبوں سے مرے نالے نہ گئے
تا دمِ مرگ رہا شوقِ سفر
اس لئے پاؤں سے چھالے نہ گئے
ہجر درپیش ہوا جب سے مجھے
تب سے مجھ کو جاں کے لالے نہ گئے
اس نے ڈالے تھے مری قبر پہ جو
پھول مجھ سے وہ سنبھالے نہ گئے
آنکھ روشن نہ رہی میری مگر
تیری یادوں کے اجالے نہ گئے
صبر ساغر تھا مرے ساتھ جبھی
دکھ ترے مجھ سے اچھالے نہ گئے

0
85