کیوں چھوڑتے ہیں مائلِ آزار دیکھ کر
قاتل کو کیوں ہوا ہے یہ شمشیر سے گریز
منزل مری نہیں ہے یہ لیکن برائے دل
واللہ مجھ کو ہے نہیں زنجیر سے گریز
تعلیمِ فتنہ فتنۂ تعلیم سے حذر
تکبیرِ فتنہ فتنۂ تکبیر سے گریز
آہٹ سے دل جو جھومتا جاتا تھا ہر گھڑی
اب کر رہا ہے کیوں تری تصویر سے گریز
منزل کی سمت بڑھتا ہی جاتا ہوں بے خطر
راہِ سفر میں ہے مجھے تقدیر سے گریز
ہرچند عقل کہتی ہے تدبیر کیجیے
لیکن جنوں کو ہوتا ہے تدبیر سے گریز
مخلوق دردِ عشق سے ہوتی گریز پا
قدرت کو آج شوخیِ تحریر سے گریز
کیوں کر نکالتے نہیں محفل سے اپنی آپ
کرتے ہیں آپ آج کیوں توقیر سے گریز
مانا کہ مجھ سے قطعِ تعلق نہیں مگر
آہوں کو بارہا ہوا تاثیر سے گریز

0
16