بڑی سی اک جسارت کر رکھی ہے
محبت میں عداوت کر رکھی ہے
ترا دل کش میں لکھ لوں نام جاناں
میں نے اردو کتابت کر رکھی ہے
وفا پر وہ نہ قائم ہی تھا تا ہم
یہ الفت کی تجارت کر رکھی ہے
بھلا کے تو مجھے اب جی ہی لےکچھ
میں نے تیری ضمانت کر رکھی ہے
تو بھی اجڑا ہے میرے ساتھ پیارے
میں نے بھی خود ہلا کت کر رکھی ہے
سو اک بوسہ بہ نامِ حسن آخر
حسن نے یہ رعایت کر رکھی ہے
یوں سجدہ بدحواسی میں کریں آؤ
میں نے کچھ تو عبادت کر رکھی ہے
عبیدِ فتنہ مقتل جانا ہے اب
محبت نے سماعت کر رکھی ہے

0
78