غزل
نفرتوں کے بیج بو کر الفتیں اگتی نہیں
دشمنی کی جو لکیریں کھچ گئیں مٹتی نہیں
سر پہ کوئی سائباں یا چھت تو ہونی چاہیے
ایسے تو برسات کی راتیں کبھی کٹتی نہیں
دل جلوں کی روح کی تسکین ہی مطلوب ہے
ایسے تو بادٔ صبا بھی بے سبب چلتی نہیں
گلشنِ امید پر ویرانیوں کا راج ہے
اجڑے باغیچوں میں کوئی بھی کلی کھلتی نہیں
بارشوں کا منتظر رہنا ابھی تقدیر ہے
گرد جو قسمت پہ ہے وہ جب تلک دھلتی نہیں
اک نہ اک دن فاش انور ہونی ہیں یہ بالیقیں
سازشیں تا دیر پردوں میں کبھی چھپتی نہیں
انور نمانا

0
8