غزل
جنگل کا ہی قانون اگر چلنا ہے ہم پر
رہنے کے لئے شہر میں گھر کس کے لئے ہے
گر بھٹکے مسافر کو بھی مل پایے نہ سایہ
صحرا میں کھڑا سبز شجر کس کے لیے ہے
جب نیند کی آغوش سے اٹھنا ہی نہیں تو
مجھ کو بھی بتا دو کہ سحر کس کے لیے ہے
چھونے کو ترستی ہی رہیں باہیں ہماری
نازک سی تری پتلی کمر کس کے لیے ہے
دل والوں کی راہیں تو جدا ہوتی نہیں ہیں
ہر گھر میں یہ دیوار یہ در کس کے لیے ہے
تقدیر کا لکھا تو مٹایا ہی نہ جائے
پھر تیری دعاؤں کا اثر کس کے لیے ہے
قانون سے بالا ہیں جہاں خاص تمامی
یہ کیسے ثبوت اور خبر کس کے لیے ہے
لٹ جایے اگر رستوں میں مسکین کی بیٹی
انور یہ محافظ کا ہنر کس کے لیے ہے

0
5