وہ میری جان تھا وہ مری آرزو بھی تھا |
جب بھی ملا ہوں میں اسے تو باوضو بھی تھا |
پندارِ عشق نے مجھے روکا نہیں کبھی |
وہ میرا مان تھا وہ مری آبرو بھی تھا |
لگتی تھی زندگی مجھے اس کے بنا تہی |
میں اس کی زندگی میں ذرا فالتو بھی تھا |
میں عکس اپنا دیکھ کےسمجھا تھا آئنہ |
جب گفتگو ہوئی تو میں ہی روبرو بھی تھا |
اس کو فقط نہیں تھا کہ ہو دوستی پہ ناز |
وہ دوست میرا مجھ سے بہت خوبرو بھی تھا |
اس کو یونہی نہیں تھا مرا اتنا اعتبار |
اس کے حضور میں رہا جو سرخرو بھی تھا |
مجھ پر ہی دشت میں کیا تھا سب نے انحصار |
دریا کے سامنے ذرا سی آب جُو بھی تھا |
مجبور کر دیا گیا ہجرت پہ بے سبب |
بنیاد میں وطن کی تو میرا لہو بھی تھا |
لندن میں آ ئے سیکھنے آدابِ زندگی |
تہذیب سیکھنے کو یوں تو لکھنؤ بھی تھا |
طارق سخن کے رنگ ہیں قوسِ قزح کے رنگ |
دیکھا جو سرخرو کبھی وہ زرد رُو بھی تھا |
معلومات