تھک ہار کے بیٹھے ہیں یہ اعدا مرے آگے
ان کا نہ چلا کوئی بھی حربہ مرے آگے
۔
یہ لوگ سمجھتے ہیں شجر بے مثل اس کو
وہ جبکہ ہے اک عام سا تنکا مرے آگے
۔
میں تیری تجلی سے کہیں مر ہی نہ جاؤں
پردہ نہ اٹھا رُخ سے پھر اپنا مرے آگے
۔
رکھتا ہے رقیبوں سے تعلق بھی روا وہ
پر وعدہ خلافی کا ہے طعنہ مرے آگے
۔
سیچا ہے اس امید پہ دھرتی کو لہو سے
نسلوں کو مدثر ملے دانہ مرے آگے

0
5