| تھک ہار کے بیٹھے ہیں یہ اعدا مرے آگے |
| ان کا نہ چلا کوئی بھی حربہ مرے آگے |
| ۔ |
| یہ لوگ سمجھتے ہیں شجر بے مثل اس کو |
| وہ جبکہ ہے اک عام سا تنکا مرے آگے |
| ۔ |
| میں تیری تجلی سے کہیں مر ہی نہ جاؤں |
| پردہ نہ اٹھا رُخ سے پھر اپنا مرے آگے |
| ۔ |
| رکھتا ہے رقیبوں سے تعلق بھی روا وہ |
| پر وعدہ خلافی کا ہے طعنہ مرے آگے |
| ۔ |
| سیچا ہے اس امید پہ دھرتی کو لہو سے |
| نسلوں کو مدثر ملے دانہ مرے آگے |
معلومات