لو مل گئی سند خوشنودی شتاب لئے
کہ آئے ہاتھ میں اپنے حسیں گلاب لئے
گھٹائیں جم کے فلک پر ہیں چھائیں خوب مگر
"گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لئے"
مہ تاباں کی طرح دل فریب ہو منظر
ہو نازنین کھڑی سامنے حجاب لئے
غبار راہ کی پرواہ میں خسارہ ہے
کبھی نہ پا سکیں منزل یہ اضطراب لئے
معاشرہ میں تغیر ہو رونما ناصؔر
بدی کو مل کے بھگائیں گے گر شہاب لئے

0
29