زینہار تو نہ ڈھونڈنا راہِ فرار دیکھ
ہے دفن کون اس میں تو دل کا مزار دیکھ
اس بزم رنگ و بو میں تو ہنستا ہے ہر کوئی
گر دیکھنا تجھے ہے تو غم کا شرار دیکھ
تو دیکھتا ہے صرف شہیدانِ عشق کو
اپنی ادا کو دیکھ تو اپنی کٹار دیکھ
تیری ادا و ناز کے جلوے ہیں ہر جگہ
تو دیکھتا ہے سب کو تو دل کی پکار دیکھ
آئینِ دنیا داری و دیں بھی سمجھ گئے
میرا بھی حالِ زار کبھی غمگسار دیکھ
وعدۂ وصل اس نے کیا مدتوں کے بعد
کٹتی ہے کیسے آج شبِ انتظار دیکھ
سارے جہاں میں ایک ترا ہی بھروسہ تھا
تجھ سے بھی اٹھ چلا ہے مرا اعتبار دیکھ
اپنے ستم جیسے تجھے اتنا ناز ہے
قدرت کو جیسے تجھ پہ نہیں اختیار دیکھ

0
22