کھلا یہ راز جو مجھ پر تو مجھ کو آیا یقیں
گذر متاع کا الفت میں ہے کہیں نہ کہیں
غرورِ مہر و وفا کو حضور کیا کہیے
سراپا فخر و نخوت ہمالہ دوش حسیں
یہی ہے صورتِ مہرِ جہانِ عشق و جنوں
فریب کار نگاہیں کہ فتنہ خیز جبیں
انہیں یہ زعم کہ ان سا نہیں حسیں کوئی
ہمیں غرور کہ ہم بھی کسی سے کم تو نہیں
یہ اور بات کہ ہم ان پہ جاں چھڑکتے ہیں
وگرنہ شہر میں میرے ہیں ان سے بڑھ کے حسیں
ہزاروں ناز کے پیکر ہیں میرے چرنوں میں
برا ہو عہدِ وفا کا کہ ہوں میں جس کا امیں
وصالِ شاہیؔ نصیبوں سے ہی میسر ہے
تجھے ملا ہوں تو قسمت پہ ناز کر اے قریں

1
8
شکریہ محترم