| ہماری راہ میں کوئی شجر نہیں آتے |
| خبر یہ پہلے سے ہوتی ادھر نہیں آتے |
| ہم اپنے سر میں بہت آگ لے کے پھرتے ہیں |
| مگر یہ شعلے کسی کو نظر نہیں آتے |
| مہیب صحرا سے زندہ نکل کے آئے ہیں |
| نظر اسی لیے اب بحر و بر نہیں آتے |
| تلاشِ رزق کو اک بار جو نکل جائیں |
| پلٹ کے پھر کبھی ہم اپنے گھر نہیں آتے |
| تمام عمر غلامی میں کاٹ دیتے ہیں |
| ہماری روح میں کیونکر بھنور نہیں آتے |
| بہت عجیب یاں قحط الرجال ہے شاہدؔ |
| کہ لوگ کوئی یہاں معتبر نہیں آتے |
معلومات