کیسی یہ بلا ڈھائی جا رہی ہے
ہم کو چائے پلائی جا رہی ہے
ہم ہی اردو کا مرکز ہے جی ہم کو
یاں تمیز سکھائی جا رہی ہے
بن بیاہی ہے کوئی پری لڑکی
وہ بے وجہ ستائی جا رہی ہے
کیا کہوں یہ کہ بیمار ہوں مجھ کو
بس دوائی کھلائی جا رہی ہے
زندگی ہے نعامت بڑی لیکن
سہل پن سے گنوائی جا رہی ہے
دل گرفتہ بھی کتنا میں یہ شب ہوں
شبِ ہجر منائی جا رہی ہے

0
71