| مولا حسنؑ کی آنکھوں سے آنسو ہوئے رواں |
| چہرے پہ ماں کے دیکھا طمانچے کا جو نشاں |
| ظالم نے آگ در پہ لگائی تھی جس گھڑی |
| بنتِ رسولؑ تھی پسِ دروازہ ہی کھڑی |
| پہلو پہ جلتا در وہ گرایا ہے الاماں |
| شبرؑ نے رکھا ہاتھوں کو خواہر کی آنکھوں پر |
| ٹکڑے نہ دل ہو درد کے منظر کو دیکھ کر |
| محسنؑ کو مار ڈالا یہ کہہ کر گری ہے ماں |
| زہراؑ پہ ظلم دیکھ کے رونے لگے حسینؑ |
| سر کا عمامہ پھینک کے کرنے لگے یہ بین |
| پالا ہے ہم کو پیس کے اس ماں نے چکیاں |
| چہرے کا پردہ خون میں ڈوبا ہوا تمام |
| پہلو سنبھالے کرتی تھیں فضؑہ سے یہ کلام |
| ظلم و ستم کے وار سے ٹوٹی ہیں پسلیاں |
| ظالم سے فضہ نے تھا بچایا بتولؑ کو |
| مارا ہے درہ اور طمانچہ بتولؑ کو |
| دم رک رہا تھا ہونٹوں سےبھی خون تھا رواں |
| زخموں کا خون تھمتا نہیں ہے بتولؑ کا |
| چہرہ بھی زرد ہو گیا بنتِ رسولؑ کا |
| اک دم ضعیفہ ہوگئیں مظلومہ ناتواں |
| صائب جنازہ لے کے چلے اسطرح امامؑ |
| بیٹے تھے ساتھ گھر میں رُکیں بیٹیاں تمام |
| یوں جنت البقیع کو جاتا تھا کارواں۔ |
معلومات