نظم اردو |
میری عمر کی جو کتاب ہے |
یہ اب آخری اس کا باب ہے |
یہ حیات ہے یا سراب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
جانا اپنے رب کے ہی پاس ہے |
میرا پھر بھی دل یہ اداس ہے |
یہ حساب اپنا خراب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
وہ جو ہونے مجھ سے سوال ہیں |
میری جان کا وہ وبال ہیں |
دینا پڑنا سب کا جواب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
تو اگر کسی کا کفیل تھا |
اور اسی کے حق میں بخیل تھا |
ہونا سب کا ہی احتساب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
کچھ دنوں کی یہ جو حیات تھی |
یہ ہمیشہ سے بے ثبات تھی |
ایسے گزری ہے جیسے خواب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
میرا رب تو بے شک رحیم ہے |
وہ غفور ہے وہ کریم ہے |
رحمت اس کی تو بے حساب ہے |
اس سے آگے یوم الحساب ہے |
انور نمانا |
معلومات