| اُس کی یادوں کے مقامات جدھر آتے ہیں |
| اپنے ٹوٹے ہوئے سپنے وہاں دھر آتے ہیں |
| جب کبھی لعل لبِ یار کا آتا ہے خیال |
| اشک خونیں مری آنکھوں میں اتر آتے ہیں |
| دیکھ لیں ہم بھی ذرا ضبطِ دلِ سخت، دِکھا |
| دل لبھانے کے تجھے سخت ہنر آتے ہیں |
| تیرا صیادِ اجل میرا پڑوسی ہے میاں! |
| آئے دن گھر مرے ٹوٹے ہوئے پَر آتے ہیں |
| تم یونہی آس لگائے ہوئے بیٹھی رہنا |
| کیا جنازے بھی کبھی لوٹ کے گھر آتے ہیں |
| عشق ہے جنگ کا میدان، شہیدانِ وفا! |
| پاؤں ڈلتے ہیں، لڑھکتے ہوئے سر آتے ہیں |
| تم سے بچھڑے ہوئے، ہیں زیست سے بیزار بہت |
| اکثر اوقات جو تنہاؔ ہی نظر آتے ہیں |
معلومات